آخری بار ملو ایسے کہ جلتے ہوئے دلراکھ ہوجائیں، کوئی اور تقاضا نہ کریںچاک وعدہ نہ سِلے، زخمِ تمنّا نہ کِھلےسانس ہموار رہے شمع کی لَو تک نہ ہِلےباتیں بس اتنی کہ لمحے انہیں آکر گِن جائیںآنکھ اٹھائے کوئی اُمید تو آنکھیں چھن جائیںاس ملاقات کا اس بار کوئی وہم نہیںجس سے اِک اور ملاقات کی صورت نکلےاب نہ ہیجان و جنوں کا، نہ حکایات کا وقتاب نہ تجدید وفا کا، نہ شکایات کا وقتلُٹ گئی شہرِ حوادث میں متاعِ الفاظاب جو کہنا ہے تو کیسے کوئی نوح کہیےآج تک تم سے رگِ جاں کے کئی رشتے تھےکل سے جو ہو گا اُسے کون سا رشتہ کہیےپھر نہ دہکیں گے کبھی عارض و رخسار، مِلوماتمی ہیں دِم رخصت درو دیوار، ملوپھر نہ ہم ہوں گے، نہ اقرار، نہ انکار، مِلوآخری بار مِلو
0 Comments
Recommended Comments
There are no comments to display.
Join the conversation
You are posting as a guest. If you have an account, sign in now to post with your account.
Note: Your post will require moderator approval before it will be visible.