Jump to content

عشق مجازی اور عشق حقیقی

Rate this topic


Recommended Posts

.....عشق مجازی اور عشق حقیقی
بات ہو رہی تھی پیار محبت اور عشق کی۔ سب اپنی اپنی زبان میں داستان عشق بیان کر رہے تھے۔ کہ اتنے میں مجھے کسی نے کہا کہ آپ ہر بات کو اسلام کے ساتھ منسوب کر دیتے ہیں آج کیوں خاموش ہیں۔ کیا عشق اسلام میں منع ھے۔ تو میں نے عرض کی کہ اس عشق کی وجہ سے تو یہ کائنات تخلیق ہوئی ھے تو پھر اسلام میں یہ کیسے منع ہس سکتا ھے۔ میری نظر میں تو پہلا عاشق ہی رب تعالیٰ ھے اور ہم میں سے جو کوئی بھی عشق میں مبتلا ہوتا ہے وہ سنت الٰہی پوری کر رہا ہوتا ھے۔ 
یہ عشق بھی بڑی عجب شے ہے جوں جوں اس عشق میں داخل ہوتے جائیں آپ روبوٹ سے بنتے چلے جاتے ہیں۔ عاشق قربانی کے جذبے سے سرشار اپنے معشوق کے لئیے سب کچھ لٹانے کے لئیے ہر لمحہ تیار رہتا ھے۔ 
عشق کی بھی کئی قِسمیں ہیں لیکن عرف عام میں صرف دو اقسام ہیں ایک عشق مجازی اور دوسرا عشق حقیقی۔ عشق مجازی میری نظر میں صرف آداب عشق سیکھنے کی ابتدا ھے جس میں عاشق اپنے معشوق کی خوشی کے لئیے ہر قسم کی قربانی کرنے کے لئیے کمر بستہ رہتا ھے لیکن اس کو سب سے چھپا کر رکھنا چاہتا ھے۔ عاشق چاہتا ھے کہ میں اپنے معشوق سے بے پناہ پیار کروں اور وہ مجھ سے پیار کرے لیکن کوئی ہمارے بیچ میں نہ آئے۔ جبکہ عشق حقیقی میں عاشق اپنے معشوق سے جتنا والہانہ عشق کرتا ھے اتنا ہی دوسروں سے بھی اپنے معشوق کے لئیے پیار کا خواہاں ہوتا ھے۔ 
آپ دیکھیں کہ رب جلیل نے اپنے محبوب سے عشق کیا تو اس کے لئیے ایک کائنات تخلیق کی پھر جنات اور ملائکہ سب کو اس کے جدِ امجد کی تخلیق کے وقت سر بسجود ہونے کا حکم فرمایا۔ اک بر گزیدہ عابد و زاہد جس نے کروڑوں برس الله جلِ شانه کی عبادت و ریاضت کی تھی اس نے یہ کہہ کر سجدے سے انکار کر دیا کہ یا الله اس ماٹی کے پتلے کا کوئی زرہ ایسا نہیں جہاں میری جبین سجدہ تیز نہ ہوئی ہو اور نہ کوئی زرا ایسا ھے جو میرے زیر پا نہ ہوا ہو تو پھر اسے سجدہ کیوں کروں۔ بس اتنی سی بات پہ اس کی تمام عبادات ختم کر دی گئیں اور رب نے اسے رہتی دنیا تک کے لئیے ملعون قرار دے دیا۔ اک لمحے کے لئیے سوچیں کہ ہم سارے دن میں کتنی بڑی بڑی خطائیں کرتے ہیں اور ہمارے نامہء اعمال میں نیکیاں برائے نام سی ہیں اس کے باوجود ہم رحمتِ خدا وندی سے سرشار رہتے ہیں اور ابلیس کی اک خطا اسے ملعون ناتمام کر گئی وجہ کیا تھی زرا سی غور طلب بات ھے یہ وجہ صرف یہ تھی کہ مولاءِکُل نے آدم کی تخلیق تو کی ھی تھی اپنے محبوب کے ظہور کے لئیے تو یہ بات پاک پروردگار کو پسند نہ تھی کہ کوئی اس کے محبوب کے ظہور کے اسباب کی مخالفت کرے۔ بس اتنی سی وجہ کے باعث اسے ملعون قرار دے دیا گیا۔ اب آپ اسے غرور ابلیس کی سزا کہو یا حکم خدا وندی کی خلاف ورزی لیکن سچ تو یہ تھا۔ اور دیکھو الله نے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھیجے اور سب نے تبلیغ خدا وندی کے ساتھ ساتھ نجات کا زریعہ یہ بھی بتایا کہ وہ جو آخر میں اک نبی آئے گا وہ سب کا نجات دھندہ ہو گا۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ الله جل شانه جہاں اپنے فرشتوں کو تسبیح کا حکم دیتے ہیں وہاں ہمیں بھی حکم ملتا ھے کہ میں اور میرے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ لہٰذا اے ایمان والو تم بھی ان پر درود بھیجو۔ یہ عشق پہلا عشق ھے۔ جو میرے الله نے شروع کیا۔ اس کے بعد عشق الٰہی شروع ہوتا ھے اور اس کی تو بے شمار مثالیں ہیں۔ جیسا کہ حضرت موسیٰ کے دور کی اور اسی طرح آج تک چلے آرہے ہیں عاشقِ الٰہی اور عشاق محمدی۔ 
کوئی عاشق غازی علم دین بن جاتا ھے اور کوئی غازی غلام محمد بن جاتا ھے یہ سب عشق حقیقی کے مرتکب ہیں۔ اور ہم عشق مجازی میں ہی مر رہے ہوتے ہیں۔ کسی نے پوچھا تھا کہ عشق مجازی سے عشق حقیقی کا سفر کیسے ہوتا ہے تو مجھے ایک قصہ یاد آگیا 
اک غریب عورت کسی رئیس کے گھر کام کرنے جاتی تھی ایک دن کسی وجہ سے اسے اپنے بیٹے کو بھی وہاں لے جانا پڑ گیا اس کے بیٹے کی نظر رئیس کی بیٹی پر پڑ گئی اور وہ اس کےحُسن کا دیوانہ ہو گیا۔ اب وہ ہر روز ماں سے ضد کرے کہ ایک جھلک مجھے اس حسن بیکراں کی دکھلا دی ورنہ میں مر جاؤں گا۔ ماں نے مجبور ہو کر اس رئیس زادی کو اپنا دکھڑا سنایا تو اس نے کہا کہ میرا باپ الله کے نیک بندوں سے بڑا پیار کرتا ھے تم اپنے بیٹے کو کہو کہ وہ جنگل میں بیٹھ جائے کچھ عرصہ میں اس کی شہرت ہو گی تو میرا باپ خود ہمیں اس کو سلام کرنے کے لئیے بھیج دے گا۔ ماں نے اپنے بیٹے کو ساری بات بتا دی۔ اور وہ اس کے لئیے تیار ہو گیا اس نے کہا ماں تم مجھے رات کے اندھیرے میں کھانا دے آیا کرنا تو میں وہاں بیٹھا رہوں گا۔ اب یہ سلسلہ شروع ہو گیا کہ لوگوں میں مشہور ھو گیا کہ اک الله کا بندہ جنگل میں بیٹھا ھے اور ہر وقت الله الله کرتا ھے رئیس کو جب اس کا علم ہوا تو اس نے اپنی بیوی اور بیٹی کو کہا کہ تم لوگ بھی الله کے نیک بندے کو سلام کر آؤ۔ وہ ماں بیٹی اب جنگل میں پہنچ گئیں اور اس لڑکی نے اپنے رخ روشن سے پردہ ھٹا کر انہیں مخاطب کیا کہ لو اب جی بھر کر مجھے دیکھ لو کہ تم نے یہ سارا ڈھونگ میرے ہی لئیے رچا رکھا ھے۔ لیکن وہ بندہ خدا ویسے ہی آنکھیں بند کئیے الله الله کرتا رہا۔ کئی بار کہنے کے بعد لڑکی کو غصہ آگیا اور اس نے ان کے منہ پر تھپڑ مار کر کہا کہ اب دیکھتے کیوں نہیں ہو میری طرف کے اس حسن کے آشکار ہو کر ہی آپ نے یہ ڈھونگ بنا رکھا ھے تو اب مجھے کیوں نہیں دیکھ رھے ہو۔ اس پر انہوں نے کہا بی بی جاؤ اب میں جو حسن دیکھ چکا ہوں اس کے سامنے یہ دنیاوی حسن تو اک زرہ برابر بھی نہیں۔ کیونکہ وہ عشق مجازی سے عشق حقیقی کی طرف چلے گئے تھے۔ اس لئیے یاد رکھیں کہ عشق مجازی عشق حقیقی کا پہلا زینہ ھے اور اس عشق مجازی کی کامیابی آپ کو محبت کی طرف لے جاتی ھے اور اس کا فراق آپ کو عشق حقیقی کی طرف لے جاتا ھے۔

 

FB_IMG_1487000057135.jpg

Link to comment
Share on other sites

Join the conversation

You can post now and register later. If you have an account, sign in now to post with your account.
Note: Your post will require moderator approval before it will be visible.

Guest
Reply to this topic...

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

  • Recently Browsing   0 members

    • No registered users viewing this page.
  • Forum Statistics

    2.3k
    Total Topics
    9.6k
    Total Posts
×
×
  • Create New...