میرا عشق ہو...-
تیری ذات ہو...-
پھر حُسْن عشق کی بات ہو...-
کبھی میں ملوں...-
کبھی تو ملے...-
کبھی ہم ملیں ملاقات ہو...-
کبھی تو ہو چُپ...-
کبھی میں ہوں چُپ...-
کبھی دونوں ہم چُپ چاپ ہوں...-
کبھی گفتگو..-
کبھی تذکرے...-
کوئی ذکر ہو...-
کوئی بات ہو...-
کبھی حجر ہو تو دن کو ہو...-
کہا تھا ناں!!!!!
مری خاموشیوں کو تم
کوئی معنی نہیں دینا
جدائی کی سبھی باتیں
مری آنکھوں میں پڑھ لینا
مری اس مسکراہٹ میں
اگر محسوس کر پاؤ تو
میرے آنسوؤں کی تم
نمی محسوس کر لینا
کہیں جو رہ گئی ہے
وہ کمی محسوس کر لینا
مری سوچیں،
مرے الفاظ کا جب روپ لیتی ہیں
تمہارا عکس بنتا ہے
مری نیندوں میں
جب جب رتجگوں کے دیپ جلتے ہیں
تمہارا ذکر چلتا ہے
تمہاری یاد ماضی کے
دریچے کھول دیت
میں گھر میں ہونے والی ایک تلخی پر ناخوش ہو کر ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﻧﮑﻝ ﮐﺮ ﺮﻭﮈ ﭘﺮ ﭼﻼ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ کہ پڑوس میں رہنے والے بابا جی نے روک کر پوچھا۔ بیٹا اداس لگ رہے ہو خیریت تو ہے۔ بابا جی کی بات سن کر میں نے اپنی شکائتوں کا دفتر کھول دیا۔ بابا جی زیر لب مسکرائے اور ﺯﻣﯿﻦ ﺳﮯ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺳﯽ ﭨﮩﻨﯽ ﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﻓﺮﺵ ﭘﺮ ﺭﮔﮍ ﮐﺮ اس کی چوب بنا کر بولے بھولے بادشاہ آ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﻮ ﺑﻨﺪﮦ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﻧﺴﺨﮧ ﺑﺘﺎﺗﺎ ﮨﻮﮞ
ﺍﭘﻨﯽ ﺧﻮﺍﮨﺸﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﻗﺪﻣﻮﮞ ﺳﮯ ﺁﮔﮯ ﻧﮧ ﻧﮑﻠﻨﮯ ﺩﻭ ‘
ﺟﻮ ﻣﻞ ﮔﯿﺎ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺷﮑﺮ ﮐﺮﻭ ‘ ﺟﻮ ﭼﮭﻦ ﮔﯿﺎ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺍﻓﺴﻮﺱ ﻧﮧ ﮐﺮﻭ ‘
ﺟﻮ ﻣﺎﻧ
وہ دل جو محبت کر چکا ہو
دنیا میں کسی کو محبت کیوں عطا ہوتی ہے؟ یہ ہے وہ سوال جو ہم میں سے بہت کم سمجھ پاتے ہیں۔ محبت صرف اسلئے نہیں ہوتی کہ کسی کو حاصل کر لیا جائے۔ کسی کو حاصل کرنے کیلئے تو اور دوسرے ہزاروں معمولی راستے موجود ہیں۔ نہیں جناب! اگر کسی کو یہاں محبت عطا ہوتی ہے تو اسکا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ کسی کو حاصل کرنے کے گرد زندگی بن لی جائے۔
محبت تو وہ ضرب ہے جس کے بعد دل پہلے سا نہیں رہتا۔ محبت کی بھٹی میں سمجھیں جل کر کندن ہو جاتا ہے۔ ایک پارس پتھر بن جاتا ہے جس سے ٹکرا کر ہم
لکھوں پہلے حمدِ علیِ عظیم
علیمٌ حکیمٌ رحیمٌ کریم
بدیع السمٰوات و الارض ہے
عبادت اسی کی فقط فرض ہے
وہی واجب و خالقِ ممکنات
کہا اس نے کُن، ہو گئی کائنات
نہیں کوئی موجود اس کے سوا
نہیں کوئی معبود اس کے سوا
اسی سے وجود اور اسی سے عدم
اسی سے حدوث اور اسی سے قدم
اسی کے ہیں وارفتہ یہ ماہ و مہر
اسی کے ہیں سرگشتہ ساتوں پہر
نہ وہ جسم ہے اور نہ وہ جان ہے
ہر اک جسم و جاں اِس میں حیران ہے
وہ
" اگلے روز انہوں نے مجھے مدینہ منورہ سے رخصت کردیا میں نے بہت عذر کیا کہ میرا یہاں سے ہلنے کو جی نہیں چاہتا لیکن وہ نہ مانے فرمانے لگے پانی کا برتن بہت دیر تک آگ پر پڑا رہے تو پانی ابل ابل کر ختم ہو جاتا ہے اور برتن خالی رہ جاتا ہے دنیا داروں کا ذوق شوق وقتی ابال ہوتا ہے کچھ لوگ یہاں رہ کر بعد میں پریشان ہوتے ہیں ان کا جسم تو مدینے میں ہوتا ہے لیکن دل اپنے وطن کی طرف لگا رہتا ہے اس سے بہتر ہے کہ انسان رہے تو اپنے وطن میں مگر دل مدینے میں لگا رہے .........!!”
سارے حرفوں میں اک حرف، پیارا بہت اور یکتا بہت
سارے ناموں میں اک نام ، سوہنا بہت اور ہمار ا بہت
اس کی شاخوں پر زمانو ں کے موسم بسیرا کریں
اک شجر جس کے دامن کا سایہ بہت اور گھنیرا بہت
ایک آہٹ کی تحویل میں ہیں زمیں آسماں کی حدیں
ایک آواز دیتی ہے پہرہ بہت اور گہرا بہت
جس د ئیے کی توانائی ارض و سما کی حرارت بنی
اس دیے کا ہمیں بھی حوالہ بہت اور اجالا بہت
میری بینا ئی سے اور میرے ذہن سے محو ہوتا نہیں
میں نے روئے محمد ﷺ کو سوچا بہت اور چاہا بہت
میرے ہاتھوں سے اور
سبق پڑھا ہے یہی مکتبِ محبت میں
کسی کی یاد رہے اور سب بھلا دینا
مریضِ غم کو کسی طرح سے شفا دینا
دوا نہیں نہ سہی زہر ہی پلا دینا
دو آتشہ مرے ساقی مجھے پلا دینا
جلا کے دل مرا دل کی لگی بڑھا دینا
جو وقتِ قتل مرے شوق میں کمی دیکھو
تو مسکرا کے مرا حوصلہ بڑھا دینا
پیامبر مرے دردِ فراق کی حالت
سنے سنے نہ سنے وہ مگر سنا دینا
تم ایک بار مری مان لو پھر اس کے بعد
جو کچھ کہوں تو زبان کو قلم کرا دینا
تمہارے ہوتے طبیبوں کا کون لے احسان
تم ہی نے درد دیا ہے تم ہی دوا د
ہم دشتِ جنوں کے سودائی۔۔۔ ۔۔۔ ۔
ہم گردِ سفر، ہم نقشِ قدم۔۔
ہم سوزِطلب، ہم طرزِ فغاں---
ہم رنج چمن، ہم فصل خزاں ۔۔۔
ہم حیرت و حسرت و یاس و الم---
ہم دشت جنوں کے سودائی
یہ دشتِ جنوں، یہ پاگل پن ۔۔
یہ پیچھا کرتی رسوائی---
یہ رنج و الم، یہ حزن و ملال۔۔۔
یہ نالہء شب، یہ سوزِ کمال---
دل میں کہیں بے نام چبھن۔۔
اور حدِ نظر تک تنہائی
ہم دشتِ جنوں کے سودائی---
اب جان ہماری چُھوٹے بھی۔۔
یہ دشتِ جنوں ہی تھک جائے --
جو روح و بدن کا رشتہ تھا۔۔
کئی سال ہوئے وہ ٹوٹ گیا -
دو بوند آنسو
دو بوند انسو یا دو قطرے پانی پیاس تو دل کی جو انکھوں سے ٹپک جائے یہ قطرہ قطرہ دل پر گریں تو دامن بھگو دیں کسی کا دامن گیلا خوشیوں سے اور کسی کی زمیں پھر بھی پیاسی صدیوں سے
انسان ہمیشہ اپنے دل کی قیمت ادا کرتا دوسروں کے لیے بہائے گئے آنسو سمندر میں بھی اپنا وجود برقرار رکھتے اور اپنے لیے تنہائی میں بہائے گئے آنسو اپنی قیمت وصول کرنا جانتے بہت مہنگا سودا کرتا انسان ہر بوند انسان کے دل پر گرتی شاید خسارہ ہی اس کا مقدر انکھیں خالی ہوں یا پانی کی بوندوں سے بھری خالی دل کا پتہ دیتیں
زندگی کی یہی کہانی ہے
سانس آنی اور جانی ہے
تم جو ہوتے تو بات کچھ ہوتی
اب کہ بارش تو صرف پانی ہے
اک طرف اس کہ بولتی آنکھیں
اک طرف میری بے زبانی ہے
یوں ہی سنتے رہیں اگر دل کی
یاد رکھئے کہ جان جانی ہے
دھوپ لگتی ہے بادلوں جیسے
یہ محبت کی سائبانی ہے
بہتی جاتی ہوں ایک سمندر میں
اس کی یادوں کی بادبانی ہے
ہر طرف خار خار ہیں گلشن
باغباں خوب باغبانی ہے
آشنا ہوں میں اب سرابوں سے
میں نے صحرا کی خاک چھانی ہے
چاندنیؔ کی غزل وزل صاح
یہ لمحے عشق و مستی کے سدا پابند نہیں رہتے
سدا خوشیاں نہیں رہتی ہمیشہ غم نہیں رہتے
ذرا دیکھو کہ دروازے پہ دستک کون دیتا ہے
محبت ہو تو کہہ دینا یہاں اب ہم نہیں رہتے
کُن سے لَا تک کا سفر
کچھ لوگ کنویں کی طرح ہو تے ہیں جن میں سے ہر کوئی استطاعت بھر پانی نکالتا ہے سیراب ہوتا چلا جاتا ہے۔اور پھر وہ دن بھی آتے ہیں کہ کنواں خود پیاسا ہوجا تا ہے مگر پھر بھی مشکیں بھر بھر بانٹتا ہے۔صحرا نوردوں کو پیا سوں کو آوازیں لگاتا ہے آؤ اور پیاس بجھاؤ۔
مگر اس کنویں کا سیراب ہونا لوگوں کے ہاتھوں نہیں اللّٰہ کے ہاتھوں ہوتا ہے۔کبھی باراں رحمت برسا کر تو کبھی زمین کے بند دروازے کھول کر اسے سیراب کر دیا جاتا ہے۔
جو بس دینا جانتے ہیں ،بانٹنا جا نتے ہیں انکو سیراب کر نے وال
یہ خلا ہے عرشِ بریں نہیں، کہاں پاؤں رکھوں زمیں نہیں
ترے دَر پہ سجدے کا شوق ہے، جو یہاں نہیں تو کہیں نہیں
کسی بُت تراش نے شہر میں مجھے آج کتنا بدل دیا
میرا چہرہ میرا نہیں رہا، یہ جبیں بھی میری جبیں نہیں
ہے ضرور اِس میں بھی مصلحت، وہ جو ہنس کے پوچھے ہے خیریت
کہ محبتوں میں غرض نہ ہو، نہیں ایسا پیار کہیں نہیں
وہیں درد و غم کا گُلاب ہے، جہاں کوئی خانہ خراب ہے
جسے جُھک کے چاند نہ چُوم لے، وہ محبتوں کی زمیں نہیں
محبت کے اصولوں سے
کبھی الجھا نہیں کرتے
یہ الحاد حقیقت ھے،
سنو ایسا نہیں کرتے
بہت کم ظرف لوگوں سے
بہت محتاط رھتے ھیں
بنا سوچے سمندر میں
یونہی اترا نہیں کرتے
تیری ساقی سخاوت پہ میں
سانسیں وار دوں لیکن
میرے کامل کا فرماں ھے
کبھی بہکا نہیں کرتے
محبت سے ضروری ھے
غم دنیا کا افسانہ
محبت کے حسیں قصوں میں
کھو جایا نہیں کرتے
جسے دیکھو ،
اسے سوچو ،
جسے سوچو ،
اسے پاؤ
جسے نہ پا سکو…
اسکو کبھی دیکھا نہیں کرتے
مجھے تائب ،
وفا بردار لوگوں سے شکایت ھے
بہت تنق
🌹 ٹوٹا ہوا گلاس 🌹
عربی اخبار میں شائع ہونے والی ایک خوبصورت تحریر
" یہ ایک سعودی طالبعلم کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ ہے جو حصول تعلیم کے لیے برطانیہ میں مقیم تھا وہ طالبعلم بیان کرتا ہے کہ مجھے ایک ایسی انگریز فیملی کے ساتھ ایک کمرہ کرائے پر لے کر رہنے کا اتفاق ہوا جو ایک میاں بیوی اور ایک چھوٹے بچے پر مشتمل تھی۔ ایک دن وہ دونوں میاں بیوی کسی کام سے باہر جا رہے تھے تو انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ اگر آپ گھر پر ہی ہیں تو ہم اپنے بچے کو کچھ وقت کے لیے آپ کے پاس چھوڑ دیں ؟ میرا باہر جانے کا کوئ ا
Aankhon ki bandgi nigahain Jhuka k Chal,
Shanun se Gir gia hai Dopata Utha K Chal,
Qomun ki zindgi Teri Aaghosh Men Pali.
Qomun ki zindgi Ka Muqadar Jaga k chal,
Ankhon K Teer Tery Badan Se Paray Rahen,
Sharm_o_Haya Ko Apna Lubada Bana K Chal,
Gar Ho sakay To Serat_e_Zohra Pe Kar Amal,
Is Zindgi Ko yon Na Tamasha Bana k Chal,
Ban Ja Sheaar_e_Azamat_e_Aslaaf ka NIshan,
Har Ek Gunah Se Daman_e_Ismat Bacha K Chal,
Mana Hawa Kharab Hai Mahool Bhe Gha