دکھ کی لہر نے چھیڑا ھوگا
یاد نے کنکر پھینکا ھوگا
آج تو میرا دل کہتا ھے
تو اس وقت اکیلا ھوگا
میرے چومے ہوئے ہاتھوں سے
اوروں کو خط لکھتا ھوگا
بھیگ چلیں اب رات کی پلکیں
تو اب تھک کے سویا ھوگا
ریل کی گہری سیٹی سن کر
رات کا جنگل گونجا ھوگا
شہر کے خالی اسٹیشن پر
کوئی مسافر اترا ھوگا
آنگن میں پھر چڑیاں بولیں
تو اب سو کر اٹھا ھوگا
یادوں کی جلتی شبنم سے
پھول سا مکھڑا دھویا ھوگا
موتی جیسی شکل بنا کر
آئینے کو تکتا ھوگا
شام ہوئی اب تو بھی شاید
اپنے گھر کو لوٹا ھوگا
نیلی دھندلی خاموشی میں
تاروں کی دھن سنتا ھوگا
میرا ساتھی شام کا تارا
تجھ سے آنکھ ملاتا ھوگا
شام کے چلتے ہاتھ نے تجھ کو
میرا سلام تو بھیجا ھوگا
پیاسی کرلاتی کونجوں نے
میرا دکھ تو سنایا ھوگا
میں تو آج بہت رویا ھوں
تو بھی شاید رویا ھوگا
ناصر تیرا میت پرانا
تجھ کو یاد تو آتا ھوگا۔۔