یہ رنگِ خوُ ں ہے گلوں پر نکھار اگر ہے
حنائے پائے خزاں ہےٙ بہار اگر ہےٙ بھی
یہ پیش خیمئہِ بیدادِ تازہ ہو نہ کہیں
بدل رہی ہے ہوا ساز گار اگر ہے بھی
لہوُ کی شمعیں جلاوٴ قدم بڑھائے چلو
سروں پہ سایئہ شب ہائے تارا اگر ہے بھی
ابھی تو گرم ہے میخانہ جام کھنکاءو
بلا سے سر پہ کسی کا ادھار اگر ہے بہی
حیاتِ درد کو آلوُ دہ نشاط نہ کر
یہ کاروبار کوئی کاروبار اگر ہے بھی
یہ امتیاز ِ من و توُ خدا کے بندوں سے
وہُ آدمی نہیں طاعت گزار اگر ہے بھی
نہ پوُ چھ کیسے گزُ رتی ہے ذِ ندگی ناصرِ
بس ایک جبر ہے یہ اختیار اگر ہے بھی
ناصر_کاظمی
کلام؛ کلیاتِ ناصر ۔۔۔12-3-1969 ریڑیو لاہور