ہم رات بہت روئے، بہت آہ و فغاں کی دل درد سے بوجھل ہو تو پھر نیند کہاں کی اس گھر کی کھلی چھت پہ چمکتے ہوئے تارو کہتے ہو کبھی جا کے وہاں بات یہاں کی ؟ اللہ کرے میرؔ کا جنت میں مکاں ہو مرحوم نے ہر بات ہماری ہی بیاں کی ہوتا ہے یہی عشق میں انجام سبھی کا باتیں یہی دیکھی ہیں محبت زدگاں کی پڑھتے ہیں شب و روز اسی شخص کی غزلیں غزلیں یہ حکایات ہیں ہم دل زدگاں کی تم چرخِ چہارم کے ستارے ہوئے لوگو تاراج کرو زندگیاں اہلِ جہاں کی انشاؔ سے ملو، اس سے نہ روکیں گے وہ، لیکن اُس سے یہ ملاقات نکالی ہے کہاں کی مشہور ہے ہر بزم میں اس شخص کا سودا باتیں ہیں بہت شہر میں بدنام، میاں کی اے دوستو! اے دوستو! اے درد نصیبو گلیوں میں، چلو سیر کریں، شہرِ بتاں کی ہم جائیں کسی سَمت، کسی چوک میں ٹھہریں کہیو نہ کوئی بات کسی سود و زیاں کی انشاؔ کی غزل سن لو، پہ رنجور نہ ہونا دیوانا ہے، دیوانے نے اک بات بیاں کی