گئے دِنوں کا سراغ لے کر ، کِدھر سے آیا کِدھر گیا وہ
عجیب مانوس اجنبی تھا ، مجھے تو حیران کر گیا وہ
بس ایک موتی سی چھب دِکھا کر
بس ایک میٹھی سی دُھن سُنا کر
ستارہء شام بن کے آیا ، برنگِ خُوابِ سحر گیا وہ
خوشی کی رُت ہو کہ غم کا موسم
نظر اُسے ڈُھونڈتی ہے ہر دٙم
وُہ بُوئے گل تھا کہ نغمہء جاں ، مرے تو دل میں اُتر گیا وہ
نہ اب وُہ یادوں کا چڑھتا دریا
نہ فرصتوں کی اُداس برکھا
یُونہی ذرا سی کسک ہے دِل میں ، جو زخم گہرا تھا بھر گیا وہ
کچھ اب سنبھلنے لگی ہے جاں بھی
بدل چلا دٙورِ آسماں بھی
جو رات بھاری تھی ٹل گئی ہے ، جو دِن کڑا تھا گزر گیا وہ
بس ایک منزل ہے بوالہوس کی
ہزار راستے ہیں اہلِ دل کے
یہی تو ہے فرق مجھ میں ، اس میں گزر گیا میں ، ٹھہر گیا وہ
شکستہ پا راہ میں کھڑا ہوں
گئے دِنوں کو بُلا رہا ہوں
جو قافلہ میرا ہمسفر تھا ، مثالِ گردِ سفر گیا وہ
میرا تو خون ہو گیا ہے پانی
سِتمگروں کی پلک نہ بھیگی
جو نالہ اُٹھا تھا رات دِل سے ، نہ جانے کیوں بے اٙثر گیا وہ
وہ میکدے کو جگانے والا
وہ رات کی نیند اُڑانے والا
یہ آج کیا اُس کے جی میں آئی ، کہ شام ہوتے ہی گھر گیا وہ
وہ ہجر کی رات کا ستارہ
وہ ہم نفس ہم سُخن ہمارا
سدا رہے اُس کا نام پیارا ، سُنا ہے کل رات مٙر گیا وہ
وہ جس کے شانے پہ ہاتھ رکھ کر
سفر کیا تُو نے منزلوں کا
تری گلی سے نہ جانے کیوں آج ، سٙر جُھکائے گزر گیا وہ
وہ رات کا بے نوا مسافر
وہ تیرا شاعر ، وہ تیرا ناصر
تیری گلی تک تو ہم نے دیکھا تھا ، پھر نہ جانے کِدھر گیا وہ
*****
*****
شاعر : ناصر کاظمی
(دیوان)