تم کہ سنتے رہے اوروں کی زبانی لوگو
ہم سُناتے ہیں تمہیں اپنی کہانی لوگو
کون تھا دشمنِ جاں وہ کوئی اپنا تھا کہ غیر
ہاں وہی دُشمنِ جاں دلبرِ جانی لوگو
زُلف زنجیر تھی ظالم کی تو شمشیر بدن
رُوپ سا رُوپ جوانی سی جوانی لوگو
سامنے اُسکے دِکھے نرگسِ شہلا بیمار
رُو برو اُسکے بھرے سَرو بھی پانی لوگو
اُسکے ملبوس سے شرمندہ قبائے لالہ
اُس کی خوشبو سے جلے رات کی رانی لوگو
ہم جو پاگل تھے تو بے وجہ نہیں تھے پاگل
ایک دُنیا تھی مگر اُس کی دِوانی لوگو
ایک تو عشق کیا عشق بھی پھر میر سا عشق
اس پہ غالب کی سی آشفتہ بیانی لوگو
ہم ہی سادہ تھے کِیا اُس پہ بھروسہ کیا کیا
ہم ہی ناداں تھے کہ لوگوں کی نہ مانی لوگو
ہم تو اُس کے لئے گھر بار بھی تج بیٹھے تھے
اُس ستمگر نے مگر قدر نہ جانی لوگو
کس طرح بھُول گیا قول و قسم وہ اپنے
کتنی بے صرفہ گئی یاد دہانی لوگو
اب غزل کوئی اُترتی ہے تو نوحے کی طرح
شاعری ہو گئی اب مرثیہ خوانی لوگو
شمع رویوں کی محبت میں یہی ہوتا ھے
رہ گیا داغ فقط دل کی نشانی لوگو
( احمد فراز )