1891
میں پیدا ہونے والے مہاراجا بھوپندر سنگھ آف پٹیالہ نے 1938 ء میں وفات پائی تو اس کی پانچ بیویاں ، 88 اولادیں اور 350 سے زیادہ داشتائیں تھیں۔
بھوپندر سنگھ مہاراجہ اعلیٰ سنگھ کی نسل میں سے تھا۔ اس خاندان کے سربراہ نے تاریخی ہیروں اور دیگر نایاب جواہرات پر مشتمل خزانہ چھوڑا تھا۔ اس نے ایک بڑی ریاست قائم کی تھی اور اپنی اولاد کو اقتدار دے گیا تھا۔
مہاراجہ بھوپندر سنگھ بہت قابل انسان تھا۔ اس کے وزیر اور افسر نہایت لائق افراد تھے۔ ہندوستان کے ہر علاقے کا لائق ترین شخص چن کر اس کا و
.حضرت سلیمان عليه السلام نہر کے کنارے بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کی نگاہ ایک چیونٹی پر پڑی جو گیہوں کا ایک دانہ لے کر نہر کی طرف جارہی تھی
حضرت سلیما ن عليه السلام اس کو بہت غور سے دیکھنے لگے ، جب چیونٹی پانی کے قریب پہنچی تواچانک ایک مینڈ ک نے اپنا سر پانی سے نکالا اور اپنا منہ کھولا تو یہ چیونٹی اپنے دانہ کے ساتھ اس کے منہ میں چلی گئی، میڈک پانی میں داخل ہو گیا اور
حکایات سعدی رحمتہ اللہ علیہ
حضرت شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت لقمان سیاہ فام تھے۔ آپ ایک دن بغداد کے ایک بازار سے گزررہے تھے کہ ایک شخص نے اپنے گھرکی تعمیر کے لیے آپ کواپنا بھاگا ہوا غلام سمجھ کرمٹی کھودنے کے کام پر لگادیا۔ آپ وہاں ایک سال تک مٹی کھودنے کی سخت مشقت برداشت کرتے رہے ایک سال بعد اس شخص کابھاگا ہوا غلام واپس لوٹ آیا وہ آپ کوجانتا تھا۔
اس نے آپ کی جوحالت دیکھی تو آپ کے قدمو
حضور کی بڑی بیٹی ،حضرت زینب رضی اللہ عنہا
تحریر : حافظ محمد ادریس
اعلیٰ ایمان ۔ کڑا امتحان :۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمام انسانوں میں سے سب سے زیادہ سخت ابتلا و امتحان اللہ کے رسولوں پر آتاہے ۔ ایک اور حدیث میں آپ نے فرمایا کہ آپ کو سب سے زیادہ ستایا گیا ۔ یہ بھی فرمایا کہ انسان کا امتحان اس کے ایمان کے مطابق ہی ہوتاہے ۔ رسول رحمت نے اپنی زندگی میں بے پناہ مشکلات برداشت کیں ۔ انسان اپنی ذات سے زیادہ اپنی اولاد
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) مکّہ میں شِعَبِ بنی ہاشم کے اندر ٩۔ربیع الاول ، یکم عام الفیل ، یومِ سوموار ( پیر ) کو صبح کے وقت پیدا ہوئے۔
( مکّہ پر اَبْرَہہ کے حملے کے واقعے کو عام الفیل کہا جاتا ہے۔ اور یہ واقعہ ، بیشتر اہلِ سِیرَ کے بقول ۔۔۔ نبی(صلی اللہ علیہ وسلم) کی پیدائش سے صرف پچاس یا پچپن دن پہلے ماہِ محرم میں پیش آیا تھا۔لہذا یہ عیسوی سنہ ٥٧١ء کے فبروری کے اواخر یا مارچ کے اوائل کا واقعہ ہے )۔
اس وقت نوشیرواں کی تخت نشینی کا چالیسواں سال تھا اور ٢٠۔ یا ٢٢۔ اپر
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں ایک شخص تھا جو خوش الحان تھا۔
وہ مختلف محفلوں میں اشعار وغیرہ سنا کر )گانا نہیں( کچھ پیسے کما یا کرتا تھا۔ وہ شخص بوڑھا ہو گیا۔ آواز بیٹھ گئ۔ کمائی کا ذریعہ ختم ہو گیا۔ نوبت فاقوں پر پہنچ گئی۔
ایک دن بھوک کے عالم میں جنت البقیع کے قبرستان میں ایک درخت کے سائے تلے بیٹھ گیا
اور اللہ سے باتیں کرنے لگا۔ “اے اللہ جب تک جوان تھا۔ آواز ساتھ دیتی تھی۔ کماتا تھا اور کھاتا تھا۔
اب آواز بیٹھ گئی ہے۔ بھوک لگی ہے ۔
پہلی
حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے ایک مرتبہ خداوند قدوس کے دربار میں یہ عرض کیا.. "یا اللہ ! تو مجھے دکھا دے کہ تو مردوں کو کس طرح زندہ فرمائے گا..؟"
اللہ تعالیٰ نے فرمایا.. "اے ابراہیم ! کیا اس پر تمہارا ایمان نہیں ہے..؟"
آپ نے عرض کیا.. "کیوں نہیں.. میں اس پر ایمان تو رکھتا ہوں لیکن میری تمنا یہ ہے کہ اس منظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوں تاکہ میرے دل کو قرار آ جائے.."
اللہ تعالیٰ نے فرمایا.. "تم چار پرندوں کو پالو اور ان کو خوب کھلا پلا کر اچھی طرح ہلا ملا لو..