الله سے بهترین دوست کوئی نہیں هے.
جو هر وقت موجود رہتا هےبلکه ایسا لگتا هے
که منتظر هوتا هے
کبهی نہیں کہتا که
اب سب نے ٹهکرا دیا تو میں یاد آگیا
طے شده ملاقات کے وقت کہاں تهے
میں نہیں سن سکتا ابهی
میرے پاس وقت نہیں تمهارے درد سننے کے لیے..
میری مانتے هو جو میں تمهاری مانوں
میری سنتے هو جو میں تمهاری سنوں
جب میں بلاتا هوں تو منه پهیر کے چل پڑتے هو
کچھ بهی نہیں کہتا
بالکل بهی شکوه نہیں کرتا
بس سنتا رہتا هے
اور اپنی محبت کی آغوش میں لےکے دل و روح کو سکون سے بهر دیتا ه
ابھی ساون کی کوئی برسات باقی ہے کہ مجھ میں کہیں تری چاہت باقی ہے تو مجھ سا نہیں میں تجھ سا نہیں ہوں پر ایسا لگتا ہے کہیں کچھ بات باقی ہے ترا فسانہ تجھ سےپوچھیں گےلوگ زمانے کے پرمری کہانی میں تو تری ہی ذات باقی ہے سجے ہیں شہر میرے دل میں تیرے لیے کہ جسم کے ہر شہر میں تری رفعت باقی ہے ساون جائے گا تو لے جائے گا سب یادیں مری کہ ساون کی برسات میں ایک راحت باقی ہے ٹھہیر جاؤ تم میرے لیے بعد برسات چلے جانا ابھی شہر سجا ہے میرا ابھی سوغات باقی ہے
تسلسل ٹوٹ جائے گا
نہ چھیڑو کھِلتی کلیوں، ہنستے پھُولوں کو
اِن اُڑتی تتِلیوں ، آوارہ بھونروں کو
تسلسل ٹُوٹ جائے گا
فضا محوِ سماعت ہے
حسیں ہونٹوں کو نغمہ ریز رہنے دو
نگاہیں نیچی رکھو اور مجّسم گوش بن جاؤ
اگر جُنبش لبوں کو دی
تسلسل ٹوٹ جائے گا
وہ خوابیدہ ہے، خوابیدہ ہی رہنے دو
نہ جانے خواب میں کِن وادیوں کی سیر کرتی ہو
بلندی سے پھسلتے آبشاروں میں کہیں گم ہو
فلک آثار چوٹی پر کہیں محوِ ترنم ہو
اگر آواز دی تم نے
تسلسل ٹوٹ جائے گا
میں شاعر ہوں
مری فکرِ رسا، احساس کی اُس
سینہ دہک رہا ہو تو کیا چپ رہے کوئی
کیوں چیخ چیخ کر نہ گلا چھیل لے کوئی
!!__ثابت ہوا____ سکون دل و جاں کہیں نہیں
رشتوں میں ڈھونڈھتا ہے تو ڈھونڈا کرے کوئی
!!___ ترک تعلقات___ کوئی مسئلہ نہیں
یہ تو وہ راستہ ہے کہ بس چل پڑے کوئی
دیوار جانتا تھا جسے میں وہ دھول تھی
اب مجھ کو اعتماد کی دعوت نہ دے کوئی
میں خود یہ چاہتا ہوں کہ حالات ہوں خراب
!!___ میرے خلاف زہر اگلتا پھرے کوئی
اے شخص اب تو مجھ کو سبھی کچھ قبول ہے
!!___ یہ بھی قبول ہے کہ تجھے چھین لے کوئی
ہاں ٹھیک ہے میں اپنی
بزمِ یاراں میں کیا گل کھلائے گئے ہر قَبا پر ستارے سجائے گئے اتفاقاً کوئی قصر تاریک تھا انتقاماً کئی گھر جلائے گئے جن کی لَو خنجروں سے ذرا تیز تھی وہ دیے شام ہی سے بُجھائے گئے اپنی صورت بھی اک وہم لگتی ہے اب اتنے آئینے مجھ کو دکھائے گئے شہرِ دل پر مسلط رہیں ظلمتیں دشتِ ہستی میں سورج اُگائے گئے کیا غضب ہے کہ جلتے ہوئے شہر میں بجلیوں کے فضائل سنائے گئے دل وہ بازار ہے جانِ محسنؔ، جہاں کھوٹے سکے بھی اکثر چلائے گئے