Search the Community
Showing results for tags 'سجانے'.
The search index is currently processing. Current results may not be complete.
-
بزمِ کونین سجانے کے لیے آپ ﷺ آئے شمعِ توحید جلانے کے لیے آپ ﷺ آئے ایک پیغام ، جو ہو دل میں اُجالا کردے ساری دُنیا کو سُنانے کے لیے آپ ﷺ آئے ایک مدّت سے بھٹکتے ہوئے انسانوں کو ایک مرکز پہ بلانے کے لیے آپ ﷺ آئے ناخدا بن کے اُبلتے ہوئے طوفانوں میں کشتیاں پار لگانے کے لیے آپ ﷺ آئے قافلہ والے بھٹک جائیں نہ منزل سے کہیں دُور تک راہ دکھانے کے لیے آپ ﷺ آئے چشمِ بید کو اسرارِ خدائی بخشے سونے والوں کو جگانے کے لیے آپ ﷺ آئے (ساغر صدیقی) New Content added Less than in a minutes & merged. محمد ﷺ باعثِ حُسن جہاں ایمان ہے میرا محمد ﷺ حاصلِ کون و مکاں ایمان ہے میرا محمد ﷺ اوّل و آخر محمد ﷺ ظاہر و باطن محمد ﷺ ہیں بہر صورت عیاں ایمان ہے میرا شرف اِک کملی والے نے جنہیں بخشا ہے قدموں میں وہ صحرا بن گئے ہیں گلستاں ایمان ہے میرا محبت ہے جسے غارِ حرا میں رونے والے سے وہ انساں ہے خدا کا رازداں ایمان ہے میرا معطّر کر گئے ساغرؔ فضائے گلشنِ ہستی نبی ﷺ کے گیسوئے عنبر فشاں ایمان ہے میرا (ساغر صدیقی)
-
میرے خوابوں کے جھروکوں کو سجانے والی تیرے خوابوں میں کہیں میرا گزر ہے کہ نہیں پوچھ کر اپنی نگاہوں سے بتا دے مجھ کو میری راتوں کے مقدر میں سحر ہے کہ نہیں چار دن کی یہ رفاقت جو رفاقت بھی نہیں عمر بھر کے لیے آزار ہوئی جاتی ہے زندگی یوں تو ہمیشہ سے پریشاں سی تھی اب تو ہر سانس گراں بار ہوئی جاتی ہے میری اجڑی ہوئی نیندوں کے شبستانوں میں تو کسی خواب کے پیکر کی طرح آئی ہے کبھی اپنی سی، کبھی غیر نظر آئی ہے کبھی اخلاص کی مورت کبھی ہرجائی ہے پیار پر بس تو نہیں ہے مرا لیکن پھر بھی تو بتا دے کہ تجھے پیار کروں یا نہ کروں تو نے خود اپنے تبسم سے جگایا ہے جنہیں ان تمناوں کا اظہار کروں یا نہ کروں تو کسی اور کے دامن کی کلی ہے لیکن میری راتیں تری خوشبو سے بسی رہتی ہیں تو کہیں بھی ہو ترے پھول سے عارض کی قسم تیری پلکیں مری آنکھوں پہ جھکی رہتی ہیں تیرے ہاتھوں کی حرارت، ترے سانسوں کی مہک تیرتی رہتی ہے احساس کی پہنائی میں ڈھونڈھتی رہتی ہیں تخیل کی بانہیں تجھ کو سرد راتوں کی سلگتی ہوئی تنہائی میں تیرا اندازِ کرم ایک حقیقت ہے مگر یہ حقیقت بھی حقیقت میں فسانہ ہی نہ ہو تیری مانوس نگاہوں کا یہ محتاط پیام دل کے خوں کرنے کا ایک اور بہانہ ہی نہ ہو کون جانے میرے امروز کا فردا کیا ہے قربتیں بڑھ کے پشیمان بھی ہو جاتی ہیں دل کے دامن سے لپٹتی ہوئی رنگیں نظریں دیکھتے دیکھتے انجان بھی ہو جاتی ہیں میری درماندہ جوانی کی تمناوں کے مضمحل خواب کی تعبیر بتادے مجھ کو تیرے دامن میں گلستاں بھی ہیں ویرانے بھی میرا حاصل مری تقدیر بتا دے مجھ کو