Jump to content

Short Biography of Nasir Kazmi a Poet of Modern Urdu Ghazal


Knight Khan

Recommended Posts

Nasir Kazmi Urdu Poetry


 

Short Biography of Nasir Kazmi a Poet of Modern Urdu Ghazal

ناصر کاظمی 8 دسمبر، 1925 ہندوستانی پنجاب کے شہر امبالہ میں ایک ہندوستانی رائل آرمی کے ایک صوبیدار میجر محمد سلطان کے گھر پیدا ہوئے

والد کی نوکر ی کی وجہ سے ناصر کو کئی شہروں میں رہنے کا موقع ملتا رہا۔ مگر ناصر کاظمی نے اپنا میٹرک کا امتحان مسلم ہائی اسکول انبالہ سے پاس کیا۔ پھر کالج کی تعلیم کے لیے وہ لاہور کے اسلامیہ کالج آگئے جہاں پر وہ ہاسٹل میں رہائش پزیر رہے۔باوجود اس کے ناصر کاظمی رفیق خاور کے چہیتے شاگرد رہے ناصر کا دل جانے کیو ں پڑھائی سے اچاٹ ہوگیا ۔۔ اور نا صر نے اپنا بی اے بھی ادھورا چھوڑ دیا اور تعلیم کو خیر آباد کہہ دیا۔

پاکستان بننے کے بعد ناصر کاظمی لاہور منتقل ہوگئے مگر جلد ہی ان کے سر سے والدین کا سایہ شفقت اٹھ گیا۔ جس وجہ سے وہ بہت اداس اور ملول رہنے لگے۔

ناصر کافی عرصہ تک لاہور سے شائع ہونے والے مجلات سے بھی منسلک رہے۔ پھر یہ سب چھوڑ کی ریڈیو پاکستان سے ایسے منسلک ہوئے کے پھر ریڈیو پاکستان اور شاعری کے ہوکر رہے گئے۔

ناصر نے اپنی شعر گوئی کا آغاز تو پاکستان بننے سے پہلے ہی کر دیا تھا۔ناصر کی شعر گوئی کا آغاز ۱۹۴۰ء سے ہوا۔حفیظ ہوشیارپوری سے تلمذ حاصل تھا۔ پاکستان بننے کے بعد ناصر نے جدید غزل کو ایک نیا اسلوب دیا ۔ بہت سے لوگ ان کو نئے دور کی غزل کا موجد بھی کہتے ہیں گو کہ ان کی کچھ نظمیں بالا کی چاشنی اور ادب کا مزاج لے کر مشہور ہویں

"برگِ نَے" ”دیوان“ اور ”پہلی بارش“ ناصر کاظمی کی غزلوں کے مجموعے اور ”نشاطِ خواب“ نظموں کا مجموعہ ہے۔ سٔر کی چھایا ان کا منظوم ڈراما ہے۔ برگِ نَے ان کا پہلا مجموعہ کلام تھا جو 1952ء میں شائع ہوا۔

ناصر کاظمی 2 مارچ، 1972ءکو لاہور میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔۔

 

گئے دنوں کا سراغ لے کر کدھر سے آیا کدھر گیا وہ

عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کر گیا وہ

بس ایک موتی سی چھب دکھا کر بس ایک میٹھی سی دھن سنا کر

ستارۂ شام بن کے آیا برنگ خواب سحر گیا وہ

خوشی کی رت ہو کہ غم کا موسم نظر اسے ڈھونڈتی ہے ہر دم

وہ بوئے گل تھا کہ نغمۂ جاں مرے تو دل میں اتر گیا وہ

نہ اب وہ یادوں کا چڑھتا دریا نہ فرصتوں کی اداس برکھا

یوں ہی ذرا سی کسک ہے دل میں جو زخم گہرا تھا بھر گیا وہ

کچھ اب سنبھلنے لگی ہے جاں بھی بدل چلا دور آسماں بھی

جو رات بھاری تھی ٹل گئی ہے جو دن کڑا تھا گزر گیا وہ

بس ایک منزل ہے بوالہوس کی ہزار رستے ہیں اہل دل کے

یہی تو ہے فرق مجھ میں اس میں گزر گیا میں ٹھہر گیا وہ

شکستہ پا راہ میں کھڑا ہوں گئے دنوں کو بلا رہا ہوں

جو قافلہ میرا ہم سفر تھا مثال گرد سفر گیا وہ

مرا تو خوں ہو گیا ہے پانی ستم گروں کی پلک نہ بھیگی

جو نالہ اٹھا تھا رات دل سے نہ جانے کیوں بے اثر گیا وہ

وہ مے کدے کو جگانے والا وہ رات کی نیند اڑانے والا

یہ آج کیا اس کے جی میں آئی کہ شام ہوتے ہی گھر گیا وہ

وہ ہجر کی رات کا ستارہ وہ ہم نفس ہم سخن ہمارا

صدا رہے اس کا نام پیارا سنا ہے کل رات مر گیا وہ

وہ جس کے شانے پہ ہاتھ رکھ کر سفر کیا تو نے منزلوں کا

تری گلی سے نہ جانے کیوں آج سر جھکائے گزر گیا وہ

وہ رات کا بے نوا مسافر وہ تیرا شاعر وہ تیرا ناصرؔ

تری گلی تک تو ہم نے دیکھا تھا پھر نہ جانے کدھر گیا وہ

 

nasir kazmi poetry
   nasir kazmi poetry images
nasir kazmi poetry urdu 


Faiz Ahmad Faiz Poet of Hope Love and Revelation 

Saghar Siddiqui A Poet of Sadness & Love

Urdu Sad Poetry Dukh by Faraz

Edited by Knight Khan
Link to comment
Share on other sites

Join the conversation

You can post now and register later. If you have an account, sign in now to post with your account.
Note: Your post will require moderator approval before it will be visible.

Guest
Reply to this topic...

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

  • Recently Browsing   0 members

    • No registered users viewing this page.
  • Forum Statistics

    2.3k
    Total Topics
    9.7k
    Total Posts
×
×
  • Create New...