Search the Community
Showing results for tags 'پیام'.
The search index is currently processing. Current results may not be complete.
-
اس نے سکوت شب میں بھی اپنا پیام رکھ دیا ہجر کی رات بام پر ماہ تمام رکھ دیا آمد دوست کی نوید کوئے وفا میں عام تھی میں نے بھی اک چراغ سا دل سر شام رکھ دیا شدت تشنگی میں بھی غیرت مے کشی رہی اس نے جو پھیر لی نظر میں نے بھی جام رکھ دیا اس نے نظر نظر میں ہی ایسے بھلے سخن کہے میں نے تو اس کے پاؤں میں سارا کلام رکھ دیا دیکھو یہ میرے خواب تھے دیکھو یہ میرے زخم ہیں میں نے تو سب حساب جاں بر سر عام رکھ دیا اب کے بہار نے بھی کیں ایسی شرارتیں کہ بس کبک دری کی چال میں تیرا خرام رکھ دیا جو بھی ملا اسی کا دل حلقہ بگوش یار تھا اس نے تو سارے شہر کو کر کے غلام رکھ دیا اور فرازؔ چاہئیں کتنی محبتیں تجھے ماؤں نے تیرے نام پر بچوں کا نام رکھ دیا احمدفراز
-
پیام آئے ہیں اُس یارِ بے وفا کے مجھے جسے قرار نہ آیا کہیں، بُھلا کے مجھے جدائیاں ہوں تو ایسی کہ عمر بھر نہ مِلیں فریب دو تو ذرا سلسلے بڑھا کے مجھے نشے سے کم تو نہیں یادِ یار کا عالم کہ لے اڑا ہے کوئی دوش پر ہَوا کے مجھے میں خود کو بُھول چکا تھا، مگر جہاں والے اُداس چھوڑ گے آئنہ دِکھا کے مجھے تمہارے بام سے اب کم نہیں ہے رفعتِ دار جو دیکھنا ہو تو دیکھو نظر اُٹھا کے مجھے کھنچی ہُوئی ہے مِرے آنسوؤں میں اِک تصویر فراز! دیکھ رہا ہے وہ، مُسکرا کے مجھے احمد فراز